حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق،ہندوستان کے برجستہ عالم دین و محقق حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا سید رضی زیدی پھندیڑوی مقیم حال دہلی نے کہا کہ عالمین کی عظیم شخصیت حضرت علی علیہ السلام کےبارے میں کچھ لکھنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے کیونکہ وہ کسی ایک عالم کی عظیم شخصیت نہیں ہیں بلکہ عالمین کی عظیم شخصیت ہیں ۔ان کی ذات فضائل و کمالات کا ایسابیکراں سمندر ہےجس کی تہہ تک پہنچنا نا ممکن ہے۔
انسان جتناغوطہ لگاتاجائےگا اتنا زیادہ فضائل کےموتی حاصل کرتاجائےگا۔ دنیا والوں نے ان کی شخصیت کو نہیں پہچانا اگر پہچانا تو خدا اور اس کے رسول ؐ کی ذات نے پہچانا رسول خداؐ ارشاد فرماتے ہیں: یاعلی لایعرف اللّه تعالی الّا انا و انت و لایعرفنی الّا اللّه و انت و لا یعرفک الّا اللّه و انا؛(محمدتقی مجلسی،روضۃ المتقین، ج13،ص 273) اےعلی خداکومیرے اور آپ کےعلاوہ کسی نےنہیں پہچانا اور مجھےخدا اور آپ کےعلاوہ کسی نےنہیں پہچانا اور آپکو میرے اور خدا کےعلاوہ کسی نےنہیں پہچانا۔ایسی ذات (جس کے بارے میں اللہ کا حبیب جو اپنی طرف سے کلام ہی نہیں کرتا سوائے وحی کے وہ فرما رہا ہے کہ علی کو میرے اور اللہ کے سوا کسی نے نہیں پہچانا) کے بارے میں لکھنا آسان نہیں ہے مگر ہم یہاں پر حضرت کی فضیلت میں مختصر آپ کی سیرت کے چند پہلو قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں تاکہ ان کی عظمت کا اندازہ ہوجائے۔
حضرت کی عبات اور خدا کا فخر و مباہات:
جب علم لدنی کے مالک حضرت علی علیہ السلام خداوند عالم کی معرفت رکھتے ہوئے اس کی بارگاہ میں راز و نیاز اور راتوں کو جاگ کر اپنے مالک سے مناجات کرتے ہیں تو ان کی عبادت اس قدر اہمیت کی حامل ہوجاتی ہے کہ خداوند عالم ملائکہ کے سامنے حضرت کی عبادتوں پر فخر و مباہات کرتا ہے۔پیغمبراکرمؐ نےفرمایا: ایک دن صبح سویرےجبرئیل انتہائی خوشی کےساتھ میرےپاس آئے میں نےپوچھا: جبرئیل! خیریت تو ہے آج آپ بہت خوش نظر آرہے ہیں؟ جبرئیل نے کہا: اے اللہ کے نبی! کیونکرخوش نہ ہوں جبکہ خداوندعالم نےجو انعام و اکرام آپ کےجانشین اور امام امت علی بن ابیطالب کو دیاہےاس نےمیری آنکھوں کونورانی کردیاہے۔ پیغمبراکرمؐ نےفرمایا: کیسےخدانے علی علیہ السلام کوانعام اکرام سےنوازاہے؟۔
جبریل نےفرمایا:«قال: باهی بعبادته البارحة ملائکته و حملة عرشه و قال: ملائکتی انظروا الی حجّتی فی ارضی علی عبادی بعد نبیّی، فقد عفر خدّه فی التّراب تواضعاً لعظمتی، اشهدکم انّه امام خلقی و مولی بریّتی؛( بحارالانوار، دار احیاء التراث العربی، ج 41، ص 21 ذیل روایت 28)فرمایا: خداوندعالم نےعلی کی گزشتہ رات کی عبادت پرملائکہ اورحاملین عرش کےسامنےاتنافخرکیاہےاورفرمایاہے:اےمیرے فرشتو! دیکھومیرے نبی کےبعد میرے بندوں پر میری حجت کوکہ کس طرح سےاس نےاپناچہرہ اور رخسارخاک پر رکھاہے! میری عظمت کےسامنےاس کی اس تواضع کی وجہ سے میں تمہیں گواہ بناتاہوں کہ وہ میری مخلوق کا رہبر ہے اور میرے بندوں کا وارث اورسرپرست ہے۔
تمام اوالعزم انبیاء کی خصوصیات علی علیہ السلام کی ذات میں:
اہلسنت والجماعت کےایک معروف عالم بیہقی نےپیغمبراکرمؐ سےیوں روایت کی ہےکہ آپؐ نےفرمایا: «من احبّ ان ینظر الی آدم فی علمه و الی نوحٍ(ع) فی تقواه و ابراهیم فی حلمه و الی موسی فی عبادته فلینظر الی علی بن طالب علیه الصّلوة و السّلام؛(دیلمی،ارشادالقلوب،انتشارات شریف رضی،ج 2،ص 363) جوشخص آدم (ع) کےعلم کو،نوح (ع) کےتقوی ٰکو،ابراہیم (ع) کےحلم کواورموسی(ع) کی عبادت کودیکھناچاہتاہےتووہ علی بن ابیطالب پرنگاہ کرے۔
حضرت علی علیہ السلام کا علم :
علی علیہ السلام اس شخصیت کا نام ہے جس نے کسی معلم کے سامنے زانوئے ادب طے نہیں کئے بلکہ آپ علم لدنی کے مالک ہیں یعنی خداوندعالم نےآپ کو علم عطاکرکے دنیا میں بھیجا ہے۔ اسی وجہ سےآپ کاعلم تمام انسانوں سےبرتراورکسی سےقابل قیاس نہیں ہے۔ عالم اسلام میں آپ کو ’’ اعلم الناس‘‘کہہ کریاد کیا گیاہے پیغمبراکرمؐ ارشادفرماتے ہیں: «اعلم امّتی من بعدی علیّ بن ابی طالب علیه السّلام؛ (فرائدالسمطین،جوینی،ج1 ،ص97 -کفایۃ الطالب،کرخی،ص 332 )میری امت میں سب سےزیادہ دانااورعالم شخص علی بن ابیطالب ہیں۔ایک دوسری جگہ عبداللہ بن مسعودکہتےہیں: پیغمبراکرم (ص) نےفرمایا: «قُسّمت الحکمة علی عشرة اجزاءٍ فاعطی علیّ تسعة و النّاس جزءً واحداً (حلیۃ الاولیاء، ابونعیم، ج1،ص 64) حکمت اورعلم کےدس جزءاورحصے ہیں جن میں سےنوصرف علی کوعطاکئےگئے ہیں اور ایک حصہ باقی امت کےپاس ہے۔
تمام بشری علوم اورعصرحاضرکی ترقیاں علم کےاسی دسویں حصےکانتیجہ ہیں اورعلی علیہ السلام کاعلم تمام انسانوں کےعلم سےنوگنازیادہ ہے۔ اوراسکارازیہ ہےکہ اس کاسرچشمہ وحی الہی ہےیعنی پیغمبراکرمؐ کےذریعہ اللہ کی جانب سےعلم ان تک منتقل ہواہےجیساکہ خودآپؐ نےفرمایا: انا مدینة العلم و علیٌ بابھا، فمن ارادالعلم فیأت الباب (انسابالاشراف،بلاذری ، ج 2،ص 124) میں شہرعلم ہوں اورعلی اس کادوازہ ہیں جوشخص شہرعلم میں داخل ہونےکا ارادہ رکھتا ہے اسے چاہئےکہ دروازے سے داخل ہو۔جناب عائشہ علی علیہ السلام کےبارے میں کہتی ہیں: «هو اعلم النّاس بالسّنة(کنزالعمّال، علاالدین علی متقی،ج 11،ص 605- تاریخ خلفاء، سیوطی،ص 115 ) علی سنت پیغمبرکوسب سےزیادہ جاننےوالےہیں۔ابن عباس سے روایت ہے:ما علمي و علم أصحاب محمد في علم علي إلا كقطرة في سبعة أبحر.میرا اور تمام صحابہ کا علم علی علیہ السلام کے علم کے مقابلہ میں ایسا ہے جیسے سات سمندروں کے مقابلہ میں پانی کا ایک قطرہ۔(الاصابہ،ابن حجر عسقلانی،ج2، ص 509 -حلیۃ الاولیاء،ابو نعیم، ج1، ص 65 )
دنیا میں بڑے بڑے علماء گزرے اور پیدا ہو رہے ہیں مگر کسی نےدنیا کی حقیقت کو نہیں سمجھا، سمجھنا تو درکنار خود ہی دنیا کے گرویدہ ہوگئے مگر حضرت نے دنیا کی حقیقت اور اس کی دوغلی ماہیت سے انسانیت کو روشناس کرا کے بتا دیا کہ دیکھو دنیا ایک فریب کا نام ہے۔آپ نے فرمایا : مَثَلُ الدُّنْيَا كَمَثَلِ الْحَيَّةِ لَيِّنٌ مَسُّهَا، وَالسُّمُّ النَّاقِعُ فِي جَوْفِهَا، يَهْوِي إِلَيْهَا الْغِرُّ الْجَاهِلُ، وَيَحْذَرُهَا ذُواللُّبِّ الْعَاقِلُ(حضرت علی ؑنہج البلاغہ الحكمت١١٦ ) دنیا کی مثال سانپ کی سی ہے کہ جو چھونے میں نرم معلوم ہوتا ہے مگر اُس کے اندر زہر ہلاہل بھرا ہوتا ہے فریب خوردہ جاہل اس کی طرف کھنچتا ہے اور ہوشمند و دانا اُ س سے بچ کر رہتا ہے۔ دوسری جگہ ارشاد فرمایا: حسین، دلکش، دلفریب، جاذب ِنظردنیا، دھوکہ باز، بے وفا، اور ہلاکت خیز ہے۔ بظاہر انسان کا مسکن مگرحقیقتاًاس کامدفن ہے۔ اسکی چالاکیوں سےاکثر و بیشتر لوگ گمراہی کےشکارہوگئے۔ اس کی اصل ماہیت ظاہرکرتے ہوئے امام علی ؑ نے فرمایا: ’’اس دنیا کا گھاٹ گدلا اور سیراب ہونےکی جگہ کیچڑ سے بھری ہوئی ہے، اسکا ظاہرخوشنما اور باطن تباہ کن ہے۔ یہ مٹ جانے والا دھوکہ، غروب ہوجانےوالی روشنی، ڈھل جانے والا سایہ اورجھکاہوا ستون ہے۔ جب اس سےنفرت کرنے والا اس سے دل لگا لیتا ہے اور اجنبی اس سے مطمئن ہوجاتاہےتویہ اپنے پیروں کو اٹھا کر زمین پر دے مارتی ہے اور اپنے جال میں پھانس لیتی ہے اور اپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے اور اس کےگلے میں موت کا پھندا ڈال کرتنگ وتار قبر اور وحشت ناک منزل تک لے جاتی ہے‘‘ ( نہج البلاغہ خطبہ۱۸ص۹۲۲، ترجمہ مفتی جعفرحسین)
پیغمبر اکرمؐ حضرت علیؑ کے عاشق :
علی علیہ السلام اس ذات کا نام ہے جن سےتمام اوصاف کے مالک اور ساری کائنات کےمحبوب پیغمبر اکرمؐ عشق و محبت کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آیت مباہلہ سے یہ ثابت ہےکہ علیؑ نفس پیغمبر ہیں ’’ انفسنا‘‘ اور ہرانسان کو اپنی جان سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہے۔ لہذا جب علی علیہ السلام نفس وجان پیغمبر ہیں تو یقیناً ان کے نزدیک سب سے زیادہ عزیز ہیں۔
اسی وجہ سے پیغمبراکرمؐ نےبارہا فرمایا : «من احبّ علیّاً فقد احبّنی... (کنزالعمّال،متقی ہندی ،ج 11،ص 622) جوعلی کو دوست رکھے مجھے دوست رکھے گا۔ نیزفرمایا: «محبّک محبّی و مبغضک مبغضی؛(کنزالعمّال،متقی ہندی،ج 11،ص 622) اےعلی! تمہارا دوست میرا دوست ہے اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے۔ ایک شخص نے پیغمبراکرمؐ سےپوچھا: «یا رسول اللّه انّک تحبّ علیّاً؟ قال: او ماعلمت انّ علیّاً منّی و انا منه؛( المناقب، ایضاً،ص 64.) اے رسولخدا! آپ علی ؑسے محبت کرتےہیں؟ فرمایا: کیاتم نہیں جانتےعلیؑ مجھ سے ہیں اور میں علی سےہوں۔
موفق بن احمد خوارزمی پوری سند کے ساتھ رسول اسلامؐ سے نقل کرتے ہیں: «انّ اللّه عزّ و جلّ امرنی بحبّ اربعةٌ من اصحابی و اخبرنی انّه یحبّهم. قلنا: یا رسول اللّه من هم؟ فکلنّا یحبّ ان یکون منهم، فقال: الا انّ علیّاً منهم ثم سکت، ثمّ قال: الا انّ علیّاً منهم ثمّ سکت (المناقب،موفق بن احمدخوارزمی ،ص 69.) خداوندعالم نے مجھے اپنے صحابیوں میں سے چار صحابیوں کو دوست رکھنے کا حکم دیا ہے اور اس نے خبر دی ہے کہ وہ بھی ان سےمحبت کرتاہے۔ میں نے پوچھا اے رسول خدا وہ کونہیں؟ ہم میں سےبھی ہر کوئی یہ چاہتاہےکہ ان میں سے ہو۔ رسول اسلامؐ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤ علیؑ ان میں سے ایک ہیں۔ اسکےبعدآپ خاموش ہو گئے پھر دوبارہ فرمایا: یقیناً علی ان میں سے ایک ہیں اور اسکے بعد آپ نے خاموشی اختیار کرلی۔ ابن عباس سے نقل ہوا ہےکہ پیغمبراکرمؐ نے فرمایا: «علیّ منّی مثل رأسی من بدنی(مناقب، موفق بن احمد خوارزمی،ص 144) علی میرےنزدیک ایسے ہیں جیسےمیرےبدن پرسرہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہےکہ پیغمبراکرمؐ کی علی علیہ السلام سے محبت رشتہ داری یا کسی غرض کے تحت نہیں تھی بلکہ آپ میں موجودفضائل وکمالات کی بنا پر اور خدا کے حکم کی تعمیل میں آپ سے محبت تھی اور انسانی فطرت بھی یہی ہے کہ جس کے اندر کمالات پائے جاتے ہیں اس سے خود بخود محبت ہوجاتی ہے۔ رب کریم سے دعا ہےکہ پالنے والے بحق سردار عرب و عجم اس عظیم شخصیت کی معرفت عطا فرما۔ آمین والحمد للہ رب العالمین۔